Arshi khan

Add To collaction

لوکل نیوز

Title: لوکل بس پر سفر
Story: 
نیلم ویلے کیل سے واپسی پر مظفرآباد آتے ہوئے لوکل بس پر سفر کرنے کا اتفاق ہوا جس کے ڈرائیور بشیر بھائی تھے بشیر بھائی نہایت سلجھے ہوئے، دھیمے مزاج کے مالک، فطرت شناس انسان ہیں اور پچھلے بیس سال سے نیلم ویلے کے دشوار گزار راستوں پر لوکل بس چلا رہے ہیں، کیل سے مظفرآباد کا لوکل بس پر سفر تقریباً ساڑھے آٹھ گھنٹے کا ہے اور اس سفر میں فطرت کے دیوانوں کے لئے جذب آمیز مناظر ہیں، بشیر بھائی کا تعلق نیلم ویلے سے ہے اور اپنی جوانی کی عمر میں جہادی تنظیم حزب المجاھدین سے مسلک رہے ہیں اور  متعدد بار لائن آف کنٹرول کراس کرکے انڈین ایکوپائیڈ کشمیر جا چکے ہیں،
دوران گفتگو بشیر بھائی سے میں نے یوں ہی سوال کر دیا کہ آپ بیس سال سے بس چلا رہے ہیں کیا آپکے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش آیا جو ناقابل فراموش ہو، آگے کی کہانی میرے الفاظ میں بشیر بھائی کی زبانی ہے،
چند ماہ پہلے کی بات ہے کہ تاؤ بٹ سے کیل آتے ہوئے راستے میں ایک جگہ بس کی کمانیاں ٹوٹ گئی اور جس جگہ بس کی کمانیاں ٹوٹی اس جگہ کہ بارے میں مشہور ہے کہ یہاں جنات کا بسیرا ہے، بس کو ٹھیک ہونے میں کافی وقت درکار تھا تاؤ بٹ سے کم سواریاں ہونے کی وجہ سے میں نے ایک لوکل گاڑی پر سواریوں کو روانہ کیا اور خود بس کے اندر بیٹھ گیا مغرب کا وقت تھا چند لوکل لوگوں نے مجھ سے کہا کہ آپ بس میں نہ رکے یہ بس اب کل ہی ٹھیک ہوگی رات کا وقت ہے بس کو یہی کھڑا رہنے دیں لیکن مجھے مناسب نہ لگا کہ بس کو وہاں کھڑا کردوں اس لئے بس کے اندر ہی رات گزارنے کا فیصلہ کیا،
رفتہ رفتہ اندھیرا بڑھنے لگا اور دریائے نیلم جو دن کے وقت ماں کی لوری جیسی آواز میں گنگنا رہا تھا رات کی تاریکی پھیلتے ہی دہشت ناک آواز میں چنگاڑنے لگا، منظر ایسا کہ اندھیرے کے سوا کچھ سلجھائی نہ دیتا تھا،  اور میں بس کی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے دریائے نیلم کی آواز کے ساتھ ساتھ ماضی کی بھل بھلیوں میں بہنے لگا،
اچانک بس میں کچھ ہل چل ہوئی اور میری چھٹی حس کسی انجانے ان دیکھے خطرے کا پتہ دینے لگی، ایک سرد لہر پورے جسم میں دوڑی اور سردی کی باوجود میرا ماتھا پسینے سے ٹپنے لگا شاید بس میں کچھ لوگ سوار ہوئے لیکن اتنی رات کو اس ویرانے میں بس پر کون سوار ہوا ہے؟؟
ایک لمحے میں کئی سوال اور لوگوں کی اس جگہ کے بارے میں کہی ہوئی باتیں میرے ذہن میں گونجنے لگی،
"بشیر بھائی اس جگہ رات اکیلے رکنا ٹھیک نہیں ہے"
کاش کہ میں بات سن لیتا لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی اور ان دیکھی مخلوق بس پر سوار ہو چکی تھی، بس میں کئی لوگوں کی موجودگی میرے ڈر کو بڑھانے کے لئے کافی تھی لیکن مڑ کے دیکھنے کی ہمت نہ ہوئی، مجھے ایسا لگا جیسے میرے ہاتھ پاؤں اب میری بجائے اسی مخلوق کے قابو میں ہیں،
لیکن یہ تو شروعات تھی اور لیکن جو ہونا تھا اسکی توقع تو شاید میرے فرشتوں کو بھی نہ تھی، اچانک سے مجھے یوں لگا جیسے مجھے کھینچ کر پیچھے لے کر جانے کی کوشش کی جارہی ہے میں نے اپنی پوری ہمت جمع کرکے پیچھے دیکھا تو بس کے اندھیرے میں کئی سبز رنگ کی چمکتی ہوئی آنکھیں مجھے دیکھ رہی تھیں اور ایک آنکھ میرے بالکل قریب مجھے پیچھے لے جانے کی کوشش کر رہی تھی، میں چیخنا چاہتا تھا اور کچھ پڑھنا چاہتا تھا لیکن مجھ میں یہ کرنے کی ہمت نہ تھی، اس کھینچا تانی میں اچانک بس میں ایسا شور شروع ہوا جیسے کبڈی کے میچ میں تماشائی اپنے پسندیدہ کھلاڑی کو داد دے رہے ہوں،
قریب تھا کہ میں بس کا دروازہ کھول کر چھلانگ لگا دیتا ایک آواز آئی اور وہ ان دیکھی مخلوق غائب ہو گئی ، رفتہ رفتہ میرے جسم کی طاقت واپس آنے لگی لیکن ایک نہ ختم ہونے والا خوف میرے دل میں سما چکا تھا، اسکے بعد میں نے ساری رات گاڑی میں جاگ کر گزاری اور بس کے دروازے پھر سے بند کئے اور صبح ہونے کا انتظار کرنے لگا، وہ رات میری زندگی کی سب سے مشکل رات تھی،،،

تو دوستوں کیسا لگا سبکو۔۔۔!!!

میرے لکھنے میں کی گئی غلطیوں کی پیشگی معزرت اور اصلاح کرنے والوں کے لئے میرے دل کا دروازہ کھلا ہے،،
😊😊😊😊😊

   1
0 Comments